حضرت المثنی بن حارثہ الشیبانی ؓ کا تعارف

حضرت المثنی بن حارثہ الشیبانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ


آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ عرب کے مشہور قبیلہ شیبان سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے والد محترم کا نام حارثہ تھا ۔ جو نامور سپہ سالار اور قائد تھے انہی کی توجہ دلانے سے اسلامی لشکر نے عراق پر فوج کشی کی اور پھر اسلامی فتوحات کا دروازہ کھل گیا ۔ اپنی قوم کے وقت کے ساتھ ساتھ 9 ہجری میں بارگاہِ نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا ۔ و اگرچہ صحابی رسول تھے ، مگر انہوں نے حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی قیادت میں جہاد کی سعادت نہ مل سکی ۔ اور وہ مرتے دم تک اسلام پر ڈٹے رہے ۔ 

حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے وصال کے بعد جب بعض عرب قبائل ربیعہ وغیرہ مرتد ہوگئے تو بحرین میں علاءبن الحضرمی کے لکھنے پر ان کی سرکوبی کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا یا لطیف اور ہجر کے جن لوگوں نے مرتدوں کا ساتھ دیا تھا انہیں بھی سبق سکھایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ مجھے اپنے قبیلے کا امیر مقرر فرما دیجئے تاکہ میں میں ایرانیوں کے خلاف جہاد کر سکوں ۔ سواد کے علاقے پر برابر حملے کرتے رہے ۔ پھر انہوں نے اپنے بھائی مسعود کو امداد ک لئے حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں بھیجا ۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان کی امداد کے لیے حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو کمانڈر بنا کر بھیجا اور مثنی کو انکی کمان میں لڑنے کو کہا ، جیسی انہوں نے بخوشی تسلیم کرلیا ۔ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ یمامہ سے دس ہزار مجاہدین اسلام کے ساتھ عراق کے لئے روانہ ہوئے ، اور ایک روایت میں ہے کہ وہ مدینہ منورہ سے عراق روانہ ہوئے ۔ عراق میں و دشمن کے خلاف لڑی جانے والی تمام جنگوں میں حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی کی کمان میں بڑی دلیری اور بہادری سے لڑے ۔ حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ان کی بے حد قدر کرتے تھے ۔ اور ان پر پورا اعتماد کیا کرتے تھے   حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں سوق بغداد پر حملے کے لیے بھیجا ، انہوں نے مقابلے میں آنے والوں کو شکست فاش دی ۔ اسی اثنا میں حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے حکم پر حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو شام میں روم کے خلاف لڑنے کی زمہ داری سونپی گئی ۔ انہوں نے نصف فوج کے ہمراہ شام کی راہ لی اور بقیہ فوج کی قیادت حضرت مثنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سپرد کرتے ہوئے انہیں خدا حافظ کہا ۔ اب حضرت مثنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس فوج کم تھی ۔ ایرانی سپہ سالار حرمزجا زویہ بڑی تعداد کے ساتھ مقابلے کے لیے نکلا ۔ بابل کے آس پاس بڑی سخت جنگ ہوئی ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی ۔ حضرت مثنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ۱۴ ھ کو اپنے عقیدے کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کر کے شہادت پائی ۔ اور یہ جنگ جسر کے اس زخم سے ہوئی جو انہیں مسلمان سپہ کو بچا لاتے ہوئے لگا تھا ۔ 

بحثیت انسان : 

حضرت مثنی جہاں ممتاز صاحب سیف اور سپہ سالار تھے ، وہاں صاحب قلم اور بڑے درجے کے شاعر بھی تھے ۔ مگر انکی شاعری کا موضوع خالص جہاد تھا ۔ بحثیت انسان و بہت بہادر ، نڈر اور دلیر تھے ۔ وہ مضبوط ایمان و عقیدہ کے مالک تھے ۔ ان میں تقریبا وہ تمام قائدانہ صفات موجود تھیں ، جو حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ میں تھیں ۔ شجاعت و بہادری میں وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ انہوں نے عہد صدیقی میں حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کمان میں اور عہد فاروقی میں ابو عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کمان میں نہایت اخلاص کے ساتھ کام کیا ۔ دراصل وہ اپنے لیا نہیں بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کام کرتے تھے ۔ 

Raja Arslan

Leave a Comment