google.com, pub-8027888829699698, DIRECT, f08c47fec0942fa0 خلافت راشدہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ - History Finder class="post-template-default single single-post postid-145 single-format-standard wp-embed-responsive right-sidebar nav-float-right separate-containers header-aligned-left dropdown-hover aa-prefix-histo-" itemtype="https://schema.org/Blog" itemscope>

خلافت راشدہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ


خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ

تعارف عثمان؛ 

 حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت عثمان کو خلافت سرفراز ہوئی آپ کا تعلق خاندان قریش کی ایک شاخ  بنوامیہ سے تھا ، آپ کا پیشہ تجارت تھا آپ حضرت محمد ﷺ سے چھ سال عمر میں کم سن تھے اللہ کا فضل و کرم تھا کہ آپ کو رزق و فھم عطا کیا تھا حضرت عثمان سے نبی کریم  کی دو صاحبزادیوں کی شادی ہوئی تھی اس لیے آپ کو زوالنورین کہا جاتا ہےآپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں رسول اللہ ﷺ  سے ملتا ہے ۔  

حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے معزز و محترم تھا قریش کا مشہور عہدہ عقاب یعنی فوجی نشان کی علمبردار اسی میں تھے ، حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ ھجرت سے27 ستائیس سال قبل پیدا ہوئے آپ کے حالات بچپن پردہ اخفا میں ہیں جب آپ عمر کے 34ویں سال میں تھے تو اسلام کو ظہور ہوا آپ حضرت ابوبکر کے گہرے دوست تھے ، حضرت ابوبکر کی کوششوں سے آپ مشرف بہ اسلام ہوئے اور آپ آنخضرت کے دشت حق  پر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔

تذکرہ خاندان عثمان؛ 

 خاندان بنوامیہ یعنی خاندان حضرت عثمان غنی آغاز سے ہی مسلمانوں اور اسلام کی مخالف کرتے تھے انکا غضب ہر وقت مسلمانوں پر ٹوٹتا تھا حضرت عثمان کے چچا حکم اسلام کے سخت دشمن تھے ، تمام رشتہ داروں نے آپ سے اعراض کر لیا ، حتی کہ آپ نے سخت مظالم برداشت کیے ۔ 

ھجرت عثمان؛ 

اس طرح یہ ایذا رسانی جب حد سے بڑھ گئی تو آپ نے ھجرت حبشہ کی اور آپ کے ساتھ حضرت رقیہ بھی تھی آپ چند سالوں بعد اسلام کے غلبہ کی خبر پا کر واپس آ گئے مگر چند روز مکہ میں قیام کے بعد ہجرت مدینہ کا حکم ہوا اور آپ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے  ۔ 

خلافت عثمان کا تزکرہ؛

جب حضرت عمر کی رحلت کا وقت نزدیک آیا تو آپ نے مسلمانوں میں سے چھ افراد کو منتخب کیا اور حضرت مقداد کو حکم دیا کہ میری وفات کے بعد ان چھ آدمیوں کو ایک مقام پر جمع کرنا اورتین دن کے اندر اندر خلافت کا فیصلہ کرنا یہ چھ آدمی درج ذیل ہیں 

1حضرت عثمان غنی

2-حضرت علی

3-حضرت طلحہ 

4-حضرت زبیر

5-حضرت عبدالرحمن بن روف

6-حضرت سعد بن ابی وقاص 

شہادت عمر کے بعد ان چھ آدمیوں کو حضرت مقدار نے مشہور بن مخرمہ کے گھر میں جمع کیا آخری دن حضرت سعد نے کہا کہ چھ آدمیوں کی تعداد کم کر دی جائے اسی تجویز کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت سعد نے عبدالرحمن کا نام پیش کیا مگر آپ نے اپنا نام واپس لے لیا حضرت طلحہ نے حضرت عثمان کا اور حضرت زبیر نے حضرت علی کا نام پیش کیا نیز صرف دو نامزد رہ گئے یعنی حضرت عثمان اور حضرت علی حضرت عبدالرحمن نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے جو بھی کتاب و سنت اور شیخین کے طرزعمل پر چلنے کا وعدہ کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی اور حضرت عثمان سے درخواست کی کہ وہ فیصلہ ان پر چھوڑ دیں یہ دونوں اصحاب رضا مند ہو گئے اس کے بعد آپ نے تمام مسلمانوں کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور مسلمانوں کو خطبہ دیا اس کے بعد حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور حضرت علی نے بھی حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اس منظر کا نظارہ کرتے ہوئے تمام مسلمان بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے عام بیعت کے بعد حضرت عثمان 24ھ میں مسند خلافت پر متمکن ہو گئے

خطبہ خلافت؛

جب مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تو آپ نے یہ خطبہ فرمایا ؛

میرے اوپر ذمہ داری کا بوجھ ڈالا گیا ہے جس کو میں نے قبول کیا ہے ، خبردار میں اتباع کرنے والا ہوں ، نئے سرے سے دین بنانے والا نہیں ہوں اور تمہارے  لیے میرے بارے میں اللہ عزوجل کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کے بعد تین چیزیں ضروری ہیں ۔

 مجھ پہلے لوگوں کی اتباع جس میں تمہارا اتفاق ہو چکا ہے اور تمہارے لیے سنت بن چکی ہے

اور اہل خیر کی سنت  جس میں کسی جماعت نے طریقہ اختیار نہیں کیا

اور تم سے درگزر کرنا،جس کے تم حقدار بن چکے ہو،خبردار بے شک دنیا سر سبز ہے اور لوگوں کی پسندیدہ ہے اور اکثر لوگ اسکی طرف مائل ہو چکے ہیں 

;احادیث میں ذکر 

:حدیث میں ہے کہ

عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔

ابو بکر جنتی ہے ،  عمر جنتی ہے ، عثمان جنتی ہے ، علی جنتی ہے ، طلہ جنتی ہے ، زبير جنتی ہے ، عبدالرحمن جنتی ہے ، سعد جنتی ہے ، سعید جنتی ہے ، ابو عبیدہ جنتی ہے ۔ 

حوالہ جات (جامع ترمذی:جلد دوم: حدیث نمبر:1713)

:ایک اور حدیث میں ہے کہ 

امام مسلم اور امام بخاری ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ روایت کی ہے کہ جب حضرت عثمان غنی ؓ ہمارے پاس آتے تو حضور اکرم ﷺ اپنا لباس درست فرما لیتے اور فرماتے تھے کہ میں اس ( عثمان غنی ) سے کیسے حیا نہ کروں کہ جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔

ایک اور موقعہ پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :  کہ جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی و رفیق ہوگا میرا ساتھی جنت میں عثمان غنی ؓ ہوگا ۔:

: ازواج اور اولاد

حضرت عثمان ؓ  کا پہلا نکاح حضرتﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تھا ۔ اُن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ تھا ، لیکن وہ ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو کر انتقال ہوگیا ۔ اس کی نسبت سے حضرت عثمان ؓ کی کنيت ابو عبداللہ تھی ۔

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد حضورﷺ کی دوسری صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا ۔ ہجری 3 میں غزوہِ بدر جس روز ختم ہوا اسی دن ان کا انتقال ہوگیا ۔ اس کے بعد حضرت عثمان ؓ نے جن خواتین سے نکاح کیا اُن کے یہ ہیں ۔  

فاختہ بنت غزوان ،ام عمرو بنت جندب ، فاطمہ بنت الولید ، اسمہ بنت ابی جہل بن ہشام ، رملہ بنت شیبہ بن ربیعہ ،   اور نائلہ بنت القرفصتہ الکلبی ہیں۔

: اولاد

عبداللہ الاصغر ، عمرو ، ابان ، خالد ، عمر ، مریم ، ولید ، سعید ، اُم سعید ، مغیرا ، الملک ،  اُم ابان ، اُم عمرو ، عائشہ , مریم الصغریٰ ، ام خالد ، اروی ، اُم ابان اصغر ،اور عنبتہ ہیں ۔   

: وصال مبارک  

آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے 12 سال خلافتِ پر فائز رہ کر 18 ذوالحجۃ الحرام سن 35 ہجری میں بروز جمعہ روزے کی حالت میں تقریباً 82 سال کی طویل عمر پا کر نہایت مظلومیت کے ساتھ نام شہادت نوش فرمایا ۔ 

 : جنت کے دولہا 

شہادت کے بعد حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے رحمت عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا :  بیشک ! عثمان ( رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ) کو جنت میں عالیشان دولہا بنایا گیا ہے ۔

 ( الریاض النضرۃ ج2 ، ص67 )  

Raja Arslan

0 thoughts on “خلافت راشدہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ”

Leave a Comment