حضرت ابو عبید بن مسعود الثقفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ
رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم غزوہ تبوک سے جب 9 ہجری میں واپس مدینہ منورہ تشریف لائے تو ثقیف قبیلے کا وفد بار گاہ نبوی میں حاضر ہوا ، اور اپنے قبیلے کی طرف سے اسلام لانے کا اعلان کیا ۔ ابو عبید بھی اپنے قبیلے کے ہمراہ اسلام لائے اور مرتے دم تک اسلام پر ڈٹے رہے وہ صحابی رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم تھے مگر انہیں حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی قیادت میں جہاد کی سعادت نہ مل سکی ۔
حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سب سے پہلے ایران پر حملے کے لیے اپنے لوگوں کو متوجہ کیا ، مگر اس وقت ایران کی طرف حملے کی کسی کو ہمت نہ پڑتی تھی ۔ چوتھے روز حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی دعوت پر جس مجاہد صحابی نے لبیک کہا ، وہ حضرت ابو عبیدہ بن مسعود ثقفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تھے ۔ آپ کے بعد سعد بن عبید انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور سلیط بن قیس انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پیش کش کی ۔ جب اس مہم کی روانگی کی بات طے ہوگی ، تو کسی کہنے والے نے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کہا کہ مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ہیں ان میں سے کسی کو سپہ سالار مقرر کر دیجئے ۔ اس پر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا : کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس لئے کہ مہاجرین اور انصار میں سے کسی نے پہل تو نہیں کی ۔ میں ان پر اس کو امیر مقرر کروں گا ، جس نے پہل کی ہے اور وہ ابوعبید ہیں ۔ پھر حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ابو عبید ، سعد اور سلیط کو بلایا اور ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : کہ اگر تم دونوں میں سے کسی نے پہل کی ہوتی تو میں قیادت تمہارے سپرد کر دیتا ۔ پھر ابو عبید سے یوں مخاطب ہوئے ۔ نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے ان صحابہ کی بات ماننا ، انھیں سے مشورہ لیتے رہنا اور ہرگز جلدی نہ کرنا بلکہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ، اس لئے کہ یہ جنگ ہے جھنگ میں ہمیشہ کامیاب وہی رہتا ہے ، جو کہ متحمل مزاج ہوں اور جس سے پوری مہارت حاصل ہو ، اور جسے معلوم ہو کہ کب حملہ کرنا مفید ہوگا اور کب نہیں ۔ ” پھر فرمایا : کہ تم ایسی سرزمین کی طرف جا رہے ہو جس میں فریب اور مکرو خیانت ہے ۔ اپنے راز ہرگز افشا نہ کرنا اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا ۔
بن حارثہ شیبانی مدینہ منورہ سے اپنے لشکر کی طرف جلدی سے روانہ ہوگئے ، جو اس وقت عراق میں تھا ان کے فوراً بعد حضرت ابو عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پانچ ہزار مجاہدین کے ساتھ ان کی طرف روانہ ہوئے ، رستے ممثنییں اور بھی مجاہد اس لشکر میں شریک ہوتے گئے ۔ مثنی بن حارثہ شیبانی کے ایک ماہ بعد حضرت ابو عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خیرہ میں پہنچے ، مسند اور ابو عبیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس لشکر اسلام کو پوری طرح منظم کیا ۔ پھر ابو عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کمان میں اسلامی لشکر ” نمارق ” کے مقام پر ایرانی کمانڈر ” جابان ” اور اس کی فوج سے نبرد آزما ہوا ۔ بہت سخت جنگ کے بعد بالآخر مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی ۔ اور ایرانی سپہ سالار کو قید کر لیا گیا مگر جابان نے مکر و فریب سے کام لیتے ہوئے اس مسلمان مجاہد سے امان لے لی ، جس نے اسے قید کیا تھا ۔ جب یہ بات حضرت ابو عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تک پہنچی تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ اسے قتل کر دینا چاہیے کہ یہ ایرانی فوج کا سپہ سالار ہے ۔ اور اس نے فریب سے کام لیتے ہوئے امان حاصل کی ہے ، مگر ابو عبید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کسی طرح تیار نہ ہوئے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہے ان میں سے کسی کو عہد و پیمانہ سب کا عہد و پیمان ہے ۔ اس لیے ہمیں اس کا پابند رہنا چاہیے اور اس کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے ۔ چناچہ جابان کو رہا کردیا گیا ۔
مسلمانوں کا دوسرا معرکہ کہ واسط شہر کے قریبی علاقہ سقاطیہ میں ہوا ۔ یہاں بھی فریقین بڑی بہادری سے لڑے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب فرمائی ۔
Raja Arslan