مسلم سپہ سالار حضرت زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ
: تعارف
حضرت زید بن حارث یمن کے ایک معزز قبیلہ بنو قضاعہ سے تعلق رکھتے تھے ان کی والدہ سعدی بنت تعلبہ بن معن سے تھی , جو قبیلہ طے کی ایک شاخ تھی. وہ ایک مرتبہ اپنے اس چھوٹے بچے کو ساتھ لے کر اپنے میکے گئی اسی اثنا میں بنوقین کے سوار جو غار تگری سے واپس آرہے تھے کہ اس نونہال کو خیمہ کے سامنے سے اٹھا لاۓ اور غلام بنا کر عکاظ کے بازار میں فروخت کے لئے پیش کیا, حکیم بن حزام نے چار سو درہم میں خرید کر اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کی خدمت میں پیش کر دیا . جن کی وساطت سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا شرف حاصل ہوا اور جو سرورِ کائنات ہے . ادھر ان کے والد بھی اپنے لخت جگر کے غم میں بہت تڑپ رہے تھے ایک سال بنی کلب کے کچھ آدمی حج کے لئے مکہ مکرمہ میں آئے انہوں نے ادھر زید کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور پھر جا کر ان کے والد کو اطلاع دی تو آپ کے والد اور چچا آپ کو لینے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے اور بڑی مودبانہ گزارش کی کہ انہیں آزاد کر دیا جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دی کے زید تم چاہو تو مجھے پسند کرو یا ان دونوں کو تو زید بولے کہ میں ایسا نہیں ہوں کہ آپ پر کسی کو ترجیح دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی میرے ماں باپ ھے اس پر آپ حضرت زید کو حجر اسود کے پاس لے کر گئے
: اور اعلان فرمایا
زید آج سے میرا فرزند ہے اور میں اس کا وارث ہوگا اور یہ میرا وارث ہوگا اس پر ان کے والد اور چچا بھی خوش ہو کر واپس چلے گئے
حضرت زید غلاموں میں سب سے پہلے مومن تھے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو حضرت کلثوم بن ہدم کے مہمان ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی پھوپھی ذات بہن حضرت زینب بنت جحش سے کردیا . یہ دوسری فضیلت تھی , جو ان کے حصے میں آئی لیکن ان میں نبھا نہ ہو سکا اور زید نے انہیں طلاق دے دی اور عدت کے بعد وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آگئ اس کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
حضرت زید رسول پاک صلی اللہ وسلم کے منہ بولے بیٹے تھے اور زید بن محمد کے نام سے مشہور تھے اس لیے منافقوں نے اس واقعے کو بڑی ہوا دی اور کہنے لگے
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف تو بہوں سے نکاح کرنا حرام قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنے لڑکے کی بیوی سے نکاح کرتے ہیں “قرآن پاک میں اس طرح جواب دیا گیا
” محمد صلی اللہ علیہ وسلم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ تو اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں
( سورہ الاحزاب )
: دوسری جگہ فرمایا
لوگوں کو ان کے باپ کی نسبت سے پکارو کہ اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے
چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے والد حارث کی نسبت سے زید بن حارث سے مشہور ہوگئے
: غزوات
حضرت زید تیر اندازی میں خاص مہارت رکھتے تھے اور ان کا شمار ان مشہور صحابہ میں ہوتا تھا جو اس فن میں اپنی نظیر نہیں رکھتے غزوہ بدر سے غزوہ موتہ تک جتنے بھی معرکے ہوئے ان سب میں داد شجاعت دیتے ہوئے بڑی بے جگری سے لڑے ‘ غزوہ مریسیع میں البتہ وہ شریک نہیں ہوسکے تھے . رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مدینہ میں اپنی جانشینی کا شرف بخشا تھا مشہور معرکوں کے علاوہ کئی چھوٹی مہموں میں بھی انھوں نے سپہ سالاری کے فرائض بھی انجام دیے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہہ نے فرمایا
جس فوج کشی میں زید شریک ہوتے ہیں ان میں عمارت کا عہدہ انہیں کو عطا ہوتا تھا اس طرح حضرت زید کو نوں دفعہ سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا اور ہر مرتبہ آپ کامیاب لوٹے
: غزوہ موتہ میں
موتہ دمشق کے قریب ایک جگہ ہے حضرت حارث بن عمیر جو شاہ بصری کے دربار میں سفارت کی خدمت انجام دے کر واپس آ رہے تھے کہ اسی مقام پر شرجیل ابن عمر غسانی کے ہاتھ سے شہید ہوئے یہ پہلا واقعہ تھا کہ دربار رسالت کے ایک سفیر کے ساتھ اس قسم کی جسارت کی گئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے انتقام کے لیے تین ہزار مجاہدین پر مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا حضرت زید کو اس کی قیادت سونپی اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید شہید ہو تو جعفر اور ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ اس جماعت کے امیر ہوں گے جمادی الااول 8 ھ میں یہ مہم روانہ ہوئی دشمن کو اس کی اطلاع پہلے سے مل چکی تھی اس لیے تقریبا ایک لاکھ کا لشکر میدان میں لے آئے حضرت زید نے دشمن کی کثرت کی کوئی پرواہ نہ کی اور آپ نے مجاہدین کے ساتھ ساتھ دشمن کی صفوں میں گھس گے اور ان کے ساتھ تمام مسلمان مجاہدوں نے بھی دشمنوں پر سخت حملہ کر دیا اور دیر تک بڑے زور کی لڑائی ہوتی رہی حضرت زید داد شجاعت دیتے ہوئے میدان کارزار میں شہید ہوئے ان کے بعد حضرت جعفر طیار نے علم سنبھالا اور بڑی دلیری اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ان کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ نے کمان سنبھال لی اور بڑی جرأت اور بہادری سے وہ بھی لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کر گئے ان کے بعد حضرت خالد بن ولید نے کمان سنبھال لی اور دشمن پر اتنا زور دار حملہ کیا کہ انکے پاوں اکھڑ گئے اور اس طرح یہ اپنی فوج کو پیچھے ہٹاتے ہٹاتے بچاکر لے آۓ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کی طرف سے زید , جعفر , اور عبداللہ کی شہادت کی اطلاع مل گئ اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگے . حضرت زید کی ایک صاحبزادی شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے کی وجہ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی لگی تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ضبط نہ فرماسکے کے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے حضرت سعد بن عبادہ نے رونے کی وجہ پوچھی بہت سلم نے فرمایا کے یہ جذبہ محبت ہے
اللہ تعالیٰ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس محبوب غلام اسلام اور شہیدوں کے درجات بلند فرمائے آمین
You r fully utelizing your talent to create a good content..Appreciate your efforts
You are putting your full energies to utelize your talent…appreciate your efforts
Thanks for sharing, keep up the good work.
Thanks for sharing keep up the good work
Thanks for sharing keep up the good work
That's another amazing post on yourssite. Thanks for that
dude. Best Free Youtube Subscribers generator?
Thanks for sharing good post
Keep sharing such good information.
Keep sharing such good information