نامور سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید الکلبی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی زندگی
نام و نسب :
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ زید بن حارث بن شراحیل بن عبدالعزی کے فرزند تھے ، حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ رسول پاک صلَّی علیہ واٰلِہٖ وسلَّم کے آزاد کردہ غلام تھے ، حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی والدہ ، ام ایمن ، رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی باندی تھی ۔ ان کے وصال کے بعد رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی ملکیت میں آگئی ۔ آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے انہیں آزادی بخشی اور ان کا نکاح زید بن حارثہ سے کردیا ۔ اور ان سے حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پیدا ہوئے ۔
حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم ام ایمن کا بہت احترام کرتے تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے میری امی کے بعد میں ام ایمن میری ماں ہے ۔ جہاں تک حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے والد حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا تعلق ہے وہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنی ( منہ بولے بیٹے ) اور غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں تھے ۔ وہ بڑے بہادر اور تیر پھینکنے میں تاک تھے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان میں غزوہ بدر ، غزوہ اُحد ، غزوہ خندق ، غزوہ حدیبیہ اور حنین میں کفار کے خلاف خوب داد شجاعت دی تھی ۔ حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے حکم پر 7مہموں کی قیادت کی ۔ جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ مریسع کے لئے روانہ ہوئے تو انہیں مدینہ میں اپنے قائم مقام مقرر فرمایا ۔ حضرت عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا بیان ہے کہ آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم جب بھی کوئی مہم بھیجتے تو زید کو اس کی کمان دیتے روم کے خلاف جو تین ہزار کا لشکر آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے مقابلے کے لئے بھیجا اس کی قیادت بھی حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو سونپی اور فرمایا :
” تمہارے امیر زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہونگے ۔ وہ کام آ جائیں تو پھر جعفر بن ابی طالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ان کے بعد عبداللہ بن رواحہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہوں گے ”
غزوہ موتہ میں رومیوں کے خلاف جنگ کرتے کرتے شہید ہوئے ۔ آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے ان کی بخشش کی دعا مانگی اور رو پڑے ۔
آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ با خدا زید امارت کے زیادہ اہل ہیں اور مجھے بہت ہی پیارے ہیں ۔
اور یہ حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا خاندان ہے ۔ ان کے والد تو رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے کتنے قریب تھے ، اور ان کی والدہ کو رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم اپنی والدہ کے بعد ان کو جگہ دیتے تھے ۔ اور حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے دامن تربیت میں تربیت پائی ۔ حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور ان کے والد اللّٰہ کے رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کو بہت پیارے تھے ۔
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کا کہنا ہے کہ رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم مجھے اور حضرت حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اٹھا لیتے اور فرماتے : اے اللہ یہ دونوں مجھے پیارے ہیں تجھے بھی پیارے ہوں ۔
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مکہ کے اسلامی گھرانے میں پیدا ہوئے ، اور وہی دامنِ نبوت میں نشوونما پائی ۔ پھر مدینہ ہجرت کی اسلامی تعلیمات کا درس براہ راست نبی کریم صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم سے لیا ۔ غزوہ احد میں چونکہ عمر چھوٹی تھی اس لیے آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے واپس کر دیا ۔اور ایک سال بعد 15 سال کی عمر میں غزوہ خندق میں شرکت کی اجازت عطا ہوئی ۔ غزوہ موتہ کے علاوہ تمام غزوات میں رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی کمان میں لڑتے رہے ۔ غزوہ موتہ میں وہ اپنے والد حضرت زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کمان میں لڑے تھے ۔ اسی دوران میں کافی زخمی بھی ہو گئے ۔ حنین کے پہلے حملے میں جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تھے تو یہ رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے ساتھ ہی رہے ۔ حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ شروع ہی سے بڑے بہادر اور دلیر تھے ۔ انھیں آپ صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے کئی مہموں کی قیادت سونپی اور وہ ان سب میں ہمیشہ کامیاب رہے ۔ وہ رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے معتمد اور پیارے تھے ۔
اپنے وصال سے کچھ پہلے حضور صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم نے انہیں روم کے خلاف روانہ کیا ۔ ابھی آپ مدینہ ہی کے آس پاس تھے کہ رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی علالت کی اطلاع ہوئی تو آپ واپس آگئے اور وصال نبی صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کے بعد حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جو پہلا حکم وہ انہی کی روانگی کے بارے میں تھا ۔ جرف میں لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور وہیں سے حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اسے خدا حافظ کہا ، اس حال میں کہ اسامہ گھوڑے پر سوار اور حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پیدل تھے حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ عرض کیا کہ یا تو آپ بھی سوار ہوجائے یا پھر میں بھی اترتا ہوں ۔ پھر حضرت ابو بکر نے فرمایا نہ میں سوار ہوتا ہوں اور نہ تم اُترو ، میری خواہش یہ ہے کہ کچھ دیر کے لیے میرے قدم بھی اللّٰہ کی راہ میں غبار آلود ہوجائے ، اور غازیوں کا ثواب ملے جو ہر قدم کے عوض سات سو نیکیوں کی صورت میں ملتا ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں ان سے اجازت لی کہ چاہے تو انہیں میرے پاس رہنے دیں ۔ حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا ساتھ دینے کو کہا ۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے لشکر کو اپنی مفید نصیحتوں سے بھی نوازا ۔
حضرت اسامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ تین ہزار کے لشکر کے ساتھ اس مہم پر روانہ ہوگئے ، اور بیس دن کے بعد شمالی موتہ کے علاقے آبل کے ان لوگوں سے دو دو ہاتھ کیے ، جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف رومیوں کی مدد کی تھی ۔ پھر ارض فلسطین کے علاقوں بلقا اور داروم میں رسول پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کی ہدایت کے مطابق سری کاروائی مکمل کی ۔ چالیس یا ستر دنوں کے بعد فاتحانہ طور پر واپسی ہوئی ۔ حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور دیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں خوش آمدید کہا ، اور ہر ایک کی زبان پر رسول صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کا یہ فرمان تھا انه خلیق للامارۃ۔ یقیناً یہ قیادت کے اہل ہیں اور ان کے والد زید بھی قیادت کے اہل ہیں ۔
حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں یمامہ میں حضرت خالد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی امداد کے لئے بھیجا اور وہ ان سے جا ملے ۔ اور ان کے ساتھ جنگ یمامہ میں حصہ لیا ۔ فتح دمشق کے بعد کچھ عرصہ مزہ اور پھر وادی القرٰی میں رہے ۔ پھر مدینہ واپس آکر جرف میں مقیم ہوئے ۔ اور یہیں ۵۴ ھ میں وصال ہوا ۔ اور مدینہ میں مدفن کیے گئے اس وقت آپ کی عمر ۶۳ سال تھی ۔
Raja Arslan