google.com, pub-8027888829699698, DIRECT, f08c47fec0942fa0 نامور مسلم سپہ سالار حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ - History Finder class="post-template-default single single-post postid-133 single-format-standard wp-embed-responsive right-sidebar nav-float-right separate-containers header-aligned-left dropdown-hover aa-prefix-histo-" itemtype="https://schema.org/Blog" itemscope>

نامور مسلم سپہ سالار حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ

حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ

آپ کا نام سماعت اور کنیت ابو دجانہ تھی ۔ آپ اپنی کنیت ہی سے مشہور ہوئے۔ والد کا نام حرشہ یا اُوس بن خرشہ تھا ۔ انصار کے ایک قبیلہ خزرج سے تعلق تھا ۔ آپ ایک نامور ، مجاہد ، پہلوان ، جانثار ، بہادر اور شجاع تھے ۔ ہجرت سے پہلے اوس و خزرج کے آدمیوں کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا ۔ اسی لحاظ سے وہ قدیم الاسلام اور جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں میں تمام غزوات میں نمایاں حصہ لیا ۔ اور خوب خوب داد شجاعت دی ۔وہ اپنے کارناموں کی وجہ سے مشہور تھے غزوہ بدر میں بھی بڑی دلیری اور جانثاری سے کفر کے خلاف لڑے ، غزوہ احد میں اس قدر جرات بہادری سے کفار کا مقابلہ کیا ، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی شجاعت کو سراہا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے کہ غزوہ احد میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ میں تلوار تھی پوچھا کہ اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا ؟ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ میں ، اسی طرح بعض دوسرے صحابہ نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا ، آخر میں حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بولے اور پوچھا اس کا حق کیا ہے ؟ فرمایا کے دشمنوں پر چل کر کھڑی ہو جائے اور اس سے کسی مسلمان کا خون نہ بہے اور تو کسی کافر سے نہ بھاگے ۔ عرض کیا کہ : میں اسکا حق ادا کروں گا ۔ ” رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تلوار حضرت ابودجانہ کو عطا فرما دی “. اس بار پر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں ، کہ میرے جی میں آیا کہ یہ تلوار مجھے کیوں عطا نہیں ہوئی جب کہ میں قریش اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ کا بیٹا ہوں ، اور ان سے پہلے اس امر کی خواہش بھی کرچکا ہوں ۔ اور ابو دجانہ میں ایسی کون سی بات ہے کہ اُنہیں عطا ہوئی ۔ تو میں ابو دجانہ کے پیچھے چل پڑا ، کیا دیکھتا ہوں کہ انہوں نے ایک سرخ رنگ کی پٹی نکال کر اپنے سر پر باندھ لی ہے ۔ اور ایسے موقع پر انصار انہیں ایسے ہی کہا کرتے تھے مجھے پٹی باندھ کر کفار کے سامنے اکڑ کر چلنے لگے اور ساتھ ہی یہ رجز بھی پڑھنے لگے ۔ 
ترجمہ : ” میں وہ ہوں کہ میرے حبیب نے مجھ سے عہد لیا ہے جب کہ ہم کھجور کے باغ کے پاس تھے میں کبھی بھی فوج کی پچھلی صف میں نہیں رہوں گا ، میں اللّٰہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار سے دشمنوں کو مارتا رہوں گا ” . آپ کی اس چال کو دیکھ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ : ایسے موقعوں کے علاوہ یہ چال اللّٰہ پاک کو پسند نہیں ہے ۔
جب جنگ شروع ہوئی اور دونوں فریق آپس میں گتھم گتھا ہوگئے تو ابو دجانہ رضی اللّٰہ عنہ کی شان ہی نرالی تھی ۔ انہوں نے کافروں پر بڑھ بڑھ کر ایسے حملے کیے کہ دیکھنے والو کو خیرت میں ڈال دیا ۔ حضرت زبیر بن العوام رضی اللّٰہ عنہ بھی انکے پیچھے بڑی دلیری سے لڑتے جا رہے تھے اور ساتھ ہی ان پر بھی نظر تھی اتنے میں ایک بڑا زور آور ہوا ۔ انہوں نے اپنی زرہ سے دفاع کر لیا اور پھر اس زور سے اس پر حملہ کیا کہ اس کا سر تن سے جدا کردیا ۔ حضرت ابو دجانہ کی گرفت کافروں پر رفتہ رفتہ سخت سے سخت تر ہوتی جا رہی تھی شیر کی طرح ان پر ٹوٹ پڑتے تھے اتنے میں ہند بن عتبہ ہار کی زد میں آ گئی جب ان کی نظر ان پر پڑی تو تلوار روک لی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی تلوار سے ایک عورت کا خون بہانا مناسب نہیں ہے ، مسلمان مجاہدوں نے اس زور کا حملہ کیا کہ کافروں کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور بھاگ نکلے ، درہ پرمتعین صحابہ نے یہ سمجھ کر فتح حاصل ہو گئی ہے رسول پاک صلی علیہ وسلم کے حکم کے علی الرغم  اپنی جگہ چھوڑ دی اور مال غنیمت کی طرف متوجہ ہوں گے اتنے میں خالد بن ولید جو ایک دستے کی کمان کر رہا تھا  اُسکی نظر اس درہ پر پڑ گئی اور انہوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے پیچھے سے آ کر حملہ کردیا ، درہ پر جو چند صحابہ رہ گئے تھے وہ انہیں روک نہ سکے ، اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ، مسلمانوں کے لیے یہ بڑا نازک موقع تھا مسلمانوں کی صفیں منتشر ہو گئی تھی مشرکوں کی آخری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائیں ، ان کا کام تمام کر دے مگر ادھر بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جان نثاروں کی کمی نہ تھی وہ بار بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہو رہے تھے ان میں ایک حضرت ابودجانہ بھی تھے ، وہ پہاڑ کی طرح جمے رہے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں اپنی پیٹھ کافروں کے سامنے کردی ۔ بے مثال ثابت قدمی میں جرات اور جانثاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگرچہ زخمی ہوئے گئے مگر کافروں کی ایک نہ چلنے دی  اور اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کی اور اسی طرح غزوات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف حضرت خالد بن ولید کی کمان میں جنگ یمامہ میں ایسی داد شجاعت دی کے غزوات کی یاد تازہ کردی ۔ مسیلمہ نے اسی مقام پر ایک باغیچہ میں پناہ لے لی اور وہاں تک رسائی بہت مشکل تھی ، حضرت ابو دجانہ نے کہا کہ کسی طرح مجھے اٹھا کر باغیچے میں پھینک دو چناچہ اُنکو پھینک دیا گیا ، گرتے ہی اگرچہ ان کا پاؤں ٹوٹ گیا تھا مگر ہمت کرکے دروازہ کھول دیا ، اور مسیلمہ سے دو دو ہاتھ کیے ، مجھے قتل کرنے میں ان کے ساتھ ساتھ وحشی اور عبداللہ بن زید بن عاصم بھی شریک تھے خود بھی زخموں سے چور چور تھے اور شہادت کی دعائیں مانگ رہے تھے کہ اسی میدان میں ان زخموں سے شہادت پائی ، اللہ تعالی ان پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔
Raja Arslan

0 thoughts on “نامور مسلم سپہ سالار حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ”

Leave a Comment